مرحلہ 11: دُعا اور غور و خوض کے ذریعے خُداوند کی مرضی جاننے اور اِسے پُورا کرنے کی قُوت پانے کے طلب گار ہوں۔
کلیدی اُصُول: شخصی مُکاشفہ
مرحلہ 11 میں ہم روزانہ خُداوند کی مرضی جاننے کے طلب گار ہونے کا عزّم کرتے ہیں اور اِسے پُورا کرنے کی قُوت پانے کے واسطے دُعا کرتے ہیں۔ ہم نے جانا کہ خُدا ہم سے کلام کرنا چاہتا ہے اور کہ ہم سیکھ سکتے ہیں کہ اُس کو کیسے سُننا ہے۔ صدر رسل ایم نیلسن نے وضاحت کی کہ: ”کیا خُدا واقعی چاہتا ہے کہ آپ سے ہم کلام ہو؟ جی ہاں!“ (”کلِیسیا کے لیے مُکاشفہ، ہماری زندگیوں کے لیے اِلہام،“ لیحونا، مئی 2018، 95)۔ اِس مرحلے کا مقصد یِسُوع مسِیح کو سُننے، ذاتی مُکاشفہ حاصِل کرنے، اور اِس کے مُطابق اپنی زِندگیاں بسر کرنے کی قُوت پانے کی اپنی صلاحیتوں کو بہتر کرنا ہے۔ شخصی مُکاشفہ کی یہ خواہش اُن ترغیبات کے بالکل برعکس ہے جن کا ہم نے تجربہ کِیا جب ہم اپنی لت میں کھو گئے تھے۔
ماضی میں ہم نے سوچا تھا کہ اُمید، خُوشی، اِطمینان، اور تکمیل زمینی ذرائع سے آئے گی جیسے کہ شراب، مُنشیات، حوس، غیر صحت مند کھانا، یا دیگر لت یا اِضطراری طرزِ عمل۔ ہمارا طرزِ عمل یہ تھا کہ ہم منفی جذبات سے بچیں اُنھیں اپنی لت سے بے حِس کر دیں۔ ہم میں سے بعض اپنی زندگیوں کے خالی پن کو خُدا کے سِوائے کسی بھی اور چیز سے بھرنے کی کوشِش کر رہے تھے۔ وقت گُزرنے کے ساتھ ہم نے دریافت کِیا کہ ہماری لت کے کوئی بھی مثبت اَثرات قلیل مُدتی، جعلی حل تھے جنھوں نے ہمیں خالی کر دِیا۔
مُکاشفہ کے خواہاں ہونا دیرپا بحالی کے حُصُول میں اَہم قدم ہے۔ صدر نیلسن نے کہا کہ: مَیں اِصرار کرتا ہُوں کہ آپ شخصی مُکاشفہ پانے کے لیے اپنی موجُودہ رُوحانی لیاقت میں وُسعت و رِفعت پیدا کریں، کیوں کہ خُداوند نے وعدہ فرمایا ہے کہ ’اگر آپ [ڈھُونڈیں] گے تو آپ مُکاشفہ پر مُکاشفہ، عِلم پر عِلم پائیں گے، کہ آپ پوشیدہ اور آسُودہ باتوں کو جان سکیں گے—جو کہ مَسرت بخشتی ہیں، جو کہ اَبَدی زِندگی لاتی ہیں‘[عقائد اور عہُود 42:61]“ (”کلِیسیا کے لیے مُکاشفہ، ہماری زندگیوں کے لیے اِلہام،“ 95)۔
ہم نے نجات دہندہ، یِسُوع مسِیح، کے لیے اپنی ضرُورت کو سراہنا اور اپنی زِندگیوں میں اُس کے کِردار کو سمجھنا شُروع کر دِیا ہے۔ دُعا کرتے ہُوئے ہم میں سے کُچھ نے خُود کو بے چین اور غیرعملی محسُوس کِیا، مگر ہم نے باپ سے اُس کے ساتھ قریبی رِشتے کے لیے یِسُوع مسِیح کے نام پر دُعا کرنا شُروع کی۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم اُس کے ساتھ اِس سے کہیں زیادہ کر سکتے ہیں جتنا ہم اُس کے بغیر کر سکتے تھے۔ ہم نے سیکھنا شُروع کِیا کہ بحالی صِرف لت یا سنجیدہ ہونے پر مرکُوز نہیں ہے، یہ ہماری زِندگیوں کے تمام پہلوؤں میں خُداوند کی ہدایت کو مدعُو کرنے کا احاطہ کرتی ہے۔
مسِیح کے پاس آنے میں دُعا، غور و خوض، اور صحائف کا مُطالعہ ضرُوری ہے۔ وہ اُس کی آواز کو سُننے اور اُس کی مرضی کو پُورا کرنے کی قُوت پانے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ ہم فروتنی کے ساتھ دُعا کرنے کی کوشِش کرتے ہیں، یہ جانتے ہُوئے کہ ہم خُداوند کی اِلہٰی ہدایت اور قُدرت پر اِنحصار کرتے ہیں۔ ہم سارا دِن توقف اور غور و خوض کرتے ہیں، اپنے ذہنوں کو خاموش کرنے اور خاموش دھیمی آواز کو سُننے کی کاوِش کرتے ہیں۔ ہم صحائف کا مُطالعہ کرتے ہیں، خاص طور پر مورمن کی کِتاب، کیوں کہ وہ ہمیں ہدایت اور قُوت دینے کے لیے خُداوند کی منشا کی گواہی دیتے ہیں۔ جب ہم یہ کام کرتے ہیں، تو ہم شخصی مُکاشفہ کا تجربہ پاتے ہیں اور ہمیں ہدایت، راہ نُمائی، اور تسلّی دینے کے لیے ”اُس کا رُوح ہمیشہ [ہمارے] ساتھ رہتا ہے“ کی برکت پاتے ہیں (مرونی 4:3)۔
ہم میں سے بُہت سوں کے لیے، ذاتی مُکاشفہ پانے کا خیال مُشکل تھا کیوں کہ ہم اِیمان رکھتے تھے کہ ہم خُدا کی محبّت کے لیے نااَہل تھے۔ اپنی لت میں، ہم نے یا تو سوچا کہ آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح ہمارے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اِتنی پرواہ نہیں کرتے تھے یا یہ کہ ہم نے اپنے ماضی کی وجہ سے مُکاشفہ پانے کا حق کھو دِیا تھا۔ ہم میں سے کُچھ کا خیال تھا کہ ہم نے کبھی شخصی مُکاشفہ نہیں پایا تھا۔ ہم نے دُعا کی یا غور و خوض کِیا، اور کُچھ بھی ہوتا دِکھائی نہ دِیا۔ ہمیں کُچھ خاص محسُوس نہیں ہُوا اور نہ ہی کوئی قابلِ شناخت جواب موصُول ہُوا۔ جب ایسا ہُوا، تو ہماری سوچ کا پُرانا اَنداز سامنے آیا: ”خُدا شاید دُوسروں کی مدد کرتا ہے، مگر وہ میری مدد نہیں کرتا۔“
ہم میں سے بُہت سے اَب بھی اِن احساسات سے نبٹ رہے ہیں۔ لیکن جب ہم نے اُس کی محبّت اور رحم کے بارے میں شعُور پایا، تو یہ جھوٹے عقائد مُنتشر ہو گئے۔ ہمارا اِعتماد ہے کہ وہ ہم سے بات چیت کرنے کے لیے کافی محبّت رکھتا ہے جب ہم اپنی زِندگیوں میں 11 مراحل کا اِطلاق کرتے ہیں تو اِس میں اِضافہ ہو سکتا ہے۔
مرحلہ 11 میں ہمارے کام کا تقاضا ہے کہ ہم اِیمان رکھیں کہ وہ ہمیں جواب دے گا، اور ہم اُس کی آواز کو پہچاننا سیکھ سکتے ہیں۔ یہ فوراً یا آسمان سے کسی مُعجزاتی نِشان کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ مگر ہم سُن سکتے اور صابر بن سکتے ہیں۔ ہم سب مُختلف طریقوں سے اُس کی سُنتے ہیں۔ بعض اوقات ہمیں فوری طور پر کوئی خاص سِمت نہیں مِلتی۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہم سے پیار نہیں کرتا۔ بلکہ، اِس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس پر بھروسا کرنا سیکھیں اور اُن سچّائیوں کا اِطلاق کریں جو اُس نے پہلے ہی ہمیں عطا کی ہیں۔ اُس پر ہمارا توّکل ہمیں اُس کا اِنتظار کرنے اور اُس کی آواز سُننے کی صلاحیت میں اِضافہ کرنے میں مدد دیتا ہے (مزید معلُومات کے لیے، دیکھیں رِچرڈ جی سکاٹ، ”دُعا کے جوابات کو پہچاننا سیکھنا،“ اِنزائن، نومبر 1989، 30)۔
خُداوند اَکثر دُوسروں کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ صدر سپنسر ڈبلیو قِمبل نے سِکھایا کہ: ”خُدا ہم پر نظر کرتا ہے، اور وہ ہماری نِگہبانی کرتا ہے۔ لیکن یہ عمُوماً کسی دُوسرے شخص کے ذریعے ہوتا ہے کہ وہ ہماری ضرُوریات کو پُورا کرتا ہے“ (”خِدمت کے چھوٹے اَعمال،“ اِنزائن، دِسمبر 1974، 5)۔ ہمارے لیے ضرُوری ہے کہ ہم دُوسروں کے ساتھ جُڑیں، خاص طور پر اُن کے ساتھ جو ہمارے مُعاونتی نِظام میں ہیں۔ ہم اُس کی آواز کو اپنے کلِیسیائی قائدین، اَراکینِ خاندان، اور دوستوں کے ساتھ ساتھ صحائف پڑھنے، مجلِسِ عامہ کے خطابات کا مُطالعہ کرنے، اور مُقدس موسیقی کے ذریعے سُن سکتے ہیں۔ جب ہم بحالی کی میٹینگوں میں شِرکت کرتے ہیں اور اپنے سپانسرز کے ساتھ بحالی کے مراحل پر کام کرتے ہیں تو ہم باقاعدگی سے اِلہام اور راہ نُمائی پا سکتے ہیں۔
مُکاشفہ کے طالب ہونے اور پانے کی اپنی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے مشق اور صبر دَرکار ہوتا ہے۔ ”یقین کریں کہ، ایسے دَور بھی آئیں گے جب آپ محسُوس کریں گے کہ آسمان بند ہیں۔ لیکن مَیں آپ سے وعدہ کرتا ہُوں جیسے جیسے آپ فرماں بردار ہوتے، خُداوند کی دی ہوئی ہر برکت کے لیے شُکر گزاری کرتے، اور صبر سے خُداوند کے وقت کے مُنتظر رہتے ہیں، تو آپ کو وہ عِلم اور فہم دِیا جائے گا جس کی آپ کو تلاش ہے۔ ہر برکت خُداوند نے آپ کے لیے رکھی ہے—حتیٰ کہ مُعجزے بھی—رُونُما ہوں گے۔ ذاتی مُکاشفہ آپ کے لیے یہی کرے گا“ (رسل ایم نیلسن ”کلِیسیا کے لیے مُکاشفہ، ہماری زِندگیوں کے لیے اِلہام، “95-96)۔
عملی مراحل
یہ ایک عملی پروگرام ہے۔ ہماری ترقی کا اِنحصار ہماری روزمرّہ کی زِندگیوں میں مراحل کو مُستقل طور پر لاگُو کرنے پر ہے۔ یہ ”مراحل پر کام کرنے“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ درج ذیل اعمال ہمیں مسِیح کے پاس آنے اور ہماری بحالی میں اگلے قدم اُٹھانے کے لیے ضرُوری ہدایت اور قُوت پانے میں مدد کرتے ہیں۔
دُعا، روزے، اور غور و خوض کے ذریعے یِسُوع مسِیح کے پاس آئیں۔
ہم میں سے وہ لوگ جو دُعا کا بُہت کم تجربہ رکھتے ہیں، ایلڈر رِچرڈ جی سکاٹ کے الفاظ یقین دِہانی کراتے ہیں کہ: ”اپنے بے ڈھنگے احساسات کی فِکر نہ کریں۔ فقط اپنے آسمانی باپ سے بات کریں۔ وہ ہر دُعا سُنتا اور اپنے طریقے سے جواب دیتا ہے“ (”دُعا کے جوابات کو پہچاننا سیکھنا،“ اِنزائن، نومبر 1989، 31)۔ دُعا کے حِصّوں کا جائزہ لینا بھی مددگار تھا۔ ہم آسمانی باپ کو نام سے مُخاطب کرتے ہیں، اُنھیں بتاتے ہیں کہ ہم کِن چیزوں کے لیے شُکر گُزار ہیں، اپنی ضرُورت کی برکات مانگتے ہیں، اور پھر یِسُوع مسِیح کے نام پر اِختتام کرتے ہیں۔ اگر ہم جِسمانی طور پر اِس قابل ہوتے ہیں تو ہم گُھٹنے ہوتے ہیں۔ ہم رُوحُ القُدس کے ذریعے اُس کی راہ نُمائی کے لیے، اَکثر بُلند آواز میں، باپ سے دُعا کرتے ہیں (دیکھیں رومیوں 8:26)۔ ہمیں فصِیح زُبان اِستعمال کرنے کی ضرُورت نہیں ہے۔ ہم دیانت دار ہو سکتے ہیں اور آسمانی باپ کے ساتھ اپنے دِلوں کے احساس بانٹ سکتے ہیں۔
ہم میں سے بُہتیروں نے جلدی اُٹھنا اور مُطالعہ اور دُعا کے لیے خاموش تنہائی میں وقت گُزارنا سیکھا۔ ہم عام طور پر صُبح کو، دُعا اور غور و خوض کے لیے وقت مُختص کرتے ہیں۔ اُس وقت کے دوران، ہم دِن میں کسی شخص اور چیز سے پہلے، خُدا کو پہلے رکھ سکتے ہیں۔ پھر ہم، صحائف اور جدید نبیوں کی تعلیمات کا اِستعمال کرتے ہُوئے اپنے غور و خوض کی راہ نُمائی کے لیے مُطالعہ کرتے ہیں۔ روزہ اِس کاوِش میں اِضافہ کرنے کا طاقت وَر ذریعہ ہو سکتا ہے۔ پھر ہم اُسے سُننے یا محسُوس کرنے کی کوشِش کرنے کے لیے اپنے دِل اور دماغ کو سُنتے ہیں۔ جب ہم دُعا اور غور و خوض کرتے ہیں تو ہم اپنے خیالات اور تاثرات کو قلم بند کرتے ہیں۔
جب یہ بیش قیمت، نِجی وقت ختم ہو جاتا ہے، تو ہم دُعا کرنا بند نہیں کرتے۔ خاموش دُعا، ہمارے دِلوں اور دماغوں کی گہرائیوں میں، سارا دن ہمارے سوچنے کا طریقہ بن جاتی ہے۔ جب ہم دُوسروں کے ساتھ بات چیت کرتے، فیصلے کرتے، اور جذبات اور آزمایشوں سے نبٹتے ہیں تو ہم خُداوند سے مشورت کرتے ہیں۔ ہم مُسلسل اُس کے رُوح کو اپنے ساتھ رکھنے کی دعوت اور تلاش کرتے ہیں، تاکہ ہم صحیح کام کرنے میں راہ نُمائی پائیں (دیکھیں زبُور 46:1؛ ایلما 37:36-37؛ 3 نیفی 20:1)۔
خاموشی اور سُکون میں غور و خوض کریں
ہم میں سے بُہت سوں کو معلُوم ہوتا ہے کہ جب ہم خُداوند سے مُکاشفہ اور ہدایت کے خواہاں ہوتے ہیں تو یہ خور و خوض ہماری مدد کرتا ہے۔ ہم خلفشار سے پاک، پُرسُکون جگہ تلاش کرتے ہیں۔ صدر رسل ایم نیلسن نے بیان کِیا ہے کہ، ”خاموشی کا وقت مُقدّس وقت ہے“ (”جو کُچھ ہم سیکھ رہے ہیں اور کبھی نہیں بُھولیں گے،“ لیحونا، مئی 2021، 80)۔ یہ آرام دَہ پوزیشن میں حاصِل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ہم اپنے دماغ کو صاف کرتے اور آرام کرتے ہیں۔ ہم کُچھ دھیمی، اور گہری سانسیں لیتے ہیں۔
پھر ہم سوچتے اور غور کرتے ہیں کہ ہمارے لیے کیا اَہم ہے اور ہمارے ذہنوں میں آنے والے خیالات کو سُنتے ہیں۔ ہم اُن چنوتیوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں، خاص طور پر وہ جو ہماری بحالی یا تعلقات میں ہیں۔ ہم صحائف کی آیات یا مجلِسِ عامہ کے خطاب کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جس کا ہم مُطالعہ کر رہے ہیں۔ ہم فقط آنے والے دِن اور اُس سِمت کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جس کی ہمیں ضرُورت ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ذہن میں آنے والے خیالات کو ہم زیادہ وضاحت کے لیے ایک روزنامچے میں قلم بند کر سکتے ہیں۔ اِس خاموش وقت کے بعد، جب ہم ”[اُس] کو ہر خیال میں دیکھنے“ کی کوشِش کرتے ہیں تو ہم دِن بھر خُداوند کی ہدایت اور قُدرت کے طالب رہتے ہیں (عقائد اور عہُود 6:36)۔
صدر ایم رسل بیلرڈ نے سِکھایا ہے کہ: ”یہ ضرُوری ہے کہ ہم آپ کو اور رُوح کو سُنیں اور اُس کی پیروی کریں۔ دُنیا کی تاریخ میں کسی بھی وقت کے برعکس، ہمیں اپنی توجہ مبذُول کروانا بُہت سی اُلجھنوں کا باعث بننا ہے۔ ہر ایک کو مراقبہ کرنے اور غور و خوض کرنے کے لیے وقت کی ضرُورت ہوتی ہے۔ … ہم سب کو اپنے آپ سے سوال کرنے یا اپنے ساتھ باقاعدہ ذاتی اِنٹرویو لینے کے لیے وقت دَرکار ہوتا ہے۔ ہم اَکثر بُہت مصرُوف ہوتے ہیں، اور دُنیا میں اِس قدر شور ہے کہ آسمانی الفاظ کو سُننا مُشکل ہوتا ہے ’خاموش رہو اور جانو کہ مَیں خُدا ہُوں‘ [زبُور 46:10] (”خاموش رہو اور جانو کہ مَیں خُدا ہُوں“ [نوجوان بالغین کے لیے کلِیسیائی نِظامِ تعلیم کی عِبادت، 4 مئی، 2014] ، broadcasts.ChurchofJesusChrist.org۔مُطالعہ اور سمجھ بُوجھ
کلِیسیائی قائدین کے درج ذیل صحائف اور بیانات ہماری بحالی میں مدد کر سکتے ہیں۔ ہم اُنھیں غور و خوض، مُطالعہ، اور روزنامچہ کے لیے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں اِس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصِل کرنے کے لیے اپنی تحریر میں اِیمان دار اور مخصُوص ہونا یاد رکھنا چاہیے۔
خُداوند کی طرف رُجُوع لاؤ
”تُم میری طرف رُجُوع لاؤ تو مَیں تُمھاری طرف رُجُوع لاؤں گا؛ جاں فِشانی سے مُجھے ڈھُونڈو تو تُم مُجھے پاؤ گے؛ مانگو، تو تُم پاؤ گے؛ کھٹکٹاؤ، تو تُمھارے واسطے کھولا جائے گا“ (عقائد اور عہُود 88:63)۔
خُداوند ہماری مرضی اور آزادی کا احترام کرتا ہے۔ وہ ہمیں اِجازت دیتا ہے کہ ہم مجبُوری کے بغیر اُس کے پاس جانے کا اِنتخاب کریں۔ وہ ہماری طرف رُجُوع لاتا ہے جب ہم اُسے ایسا کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
آج مَیں کیسے اُس کی طرف رُجُوع لاؤں گا؟
0 تبصرے
Do leave your comment here about this post.